بچوں کا نظم وضبط اور والدین کا سمجھو تہ


جہاں یہ بات پوری دنیا میں مالی بائیگی ہے کره ای باشد ایک کے بچے اپنے گھروں سے ہیں جن کے

ک

نقصان دہ ہوتی ہے وہاں ہم میں سے بہت کم لوگوں کو ان والدین کو ایک دوسرے سے لائے ہیں۔ بچے کو مارنے

بات کا ادراک ہے کہ بہت زیاد و نرمی بھی بچے کی شخصیت کے فوری بعد ہی کے نکالیں تھوڑی دیر کیلئے اور باقی

ان ہی منفی اثرات ڈالتی ہے بچے کو ہر کام کرنے کی مکمل رہنے دیں ۔

آزادی و سینا بھی درست نہیں ۔ والدین کیلئے ضروری ہے کہ کبھی الی سزا دینے کا نہیں جو آپ حقیقت میں نہیں دے

وہ بچوں کی رہنمائی کریں اور انہیں غیرضروری سرگرمیوں میں کئے۔ مثال بھی یہ نہیں کہ میں تمہاری مانگیں توڑ دوگی۔

حصہ لینے سے روکیں۔ بچے کو جسمانی سزاو نی چاہیے یا نہیں؟ کیونکہ پھر اسکے بعد آپ کو آپ کی ملکیوں کی خون کیوں م

یہ سوال ہمیشہ اساتذہ اور والدین کے درمیان تنازع رہا ہے۔ کااحساس گرما ترک کردیتا ہے۔

اکثر والدین کے خیال میں تھوڑی بہت مرزا اس وقت شروری اگر آپ اس کی پینے سے روکنے کیلئے کوئی سزا تجویز کریں ہو

ہو جاتی ہے جب حالات کنٹرول سے باہر ہونے گئیں جبکہ (مثلا جیب خرچ بند کرنے کا کہیں) تو اسے فعل کے ارکاب

دوسرے سزا کو بچے کو قابو کرنے کا تبادل نہیں بکھتے۔


کے بعد بچے کا جیب خرچ و اقحا بند کردیں۔

سزا دینے سے پہلے اساتذہ کو چند نکات ذہن نشین رکھنا بچے کو بھی ایسا تاثر نہ دیں کہ آپ صرف اپنی ذات کی تسکین

ضروری ہیں: والدین اور اساتذہ کو بچے کے سامنے ایک کیلئے اسے سزادے رہے ہیں کبھی یہ نہیں کہ میں تمہاری

بہترین مثال بن کر رہنا چاہیے۔ بچے کو سزا دینے سے پہلے وہ سے لیٹ ہوگئی ہوں یا یہ کہ تمہاری وجہ سے میرا سر شرم

اسے اپنی غلطی کو بیان کرنے کا عمل موقع فراہم کرنا چاہیے۔ سے جھک گیا ہے

ایک بچے کو بتانا چاہیے کہ اسے کسی وجہ سے سزا دی گئی ہے۔ معروف نفسیات دان کا خیال میں نے ایک پل کے طور

ان معیار میں مستقل مزا ہی ہونی چاہے۔ یہ غلط ہے کہ کی پاپنے چی کومند ریز میں سزائیں تجویز کی ہیں

غلطی پر ایک دفعہ تو سخت سزا دیدی جائے لیکن دوسری بچوں کی مسلسل جگہ تبدیل کرتے رہیں اور ان کے رویے

دوسری دفعہ پھوڑ دیا جائے بلکہ اس کی تعریف کر دی جائے۔ کو بغور دیکھیں۔

( مثلا ایک بچے کو اکثر جھوٹ بولنے پر مار پڑتی ہے لیکن انہیں کلاس کے باہر کھڑا کریں لیکن ان کا مش کلاس کی

دروازے کے باہر آنے والے شخص کو یہ کہنے پ تعریف کی طرف ہواور پڑھائی جاری رکھی جائے۔

جاتی ہے کہ ابو گھر نہیں ہیں ۔


بچوں کو ہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں سے کانوں کو کپڑے ھیں

بچے کو بہت کمی سے نہیں مارنا چاہیے کیونکہ ایسی صورت میں وہ اور اس کے باہر کھڑا کیا جائے۔

اپنے والدین یا اساتذہ سے باغی ہو سکتا ہے۔ کبھی بھی ملا ہوم ورک نہ ہونے کی صورت میں ان کی سرزنش کی

ڈنڈے بیلٹ یا جو توں وغیرہ کا استعمال نہ کیا جائے۔ ایک یا جائے اور انہیں بریک ٹائم یا چھٹی کے وقت اپنا کام مکمل

تھیٹر کافی ہوتے ہیں ۔ پچ کو اندھیرے کمرے میں بھی بند کرنے کاحکم دیا جائے۔

نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بچے کی نفسیات پر نہایت خوفناک اثر ایسی سزا میں موقع مل دیکھ کر ماحول کی مناسبت سے تجویز

ڈالتے ہیں۔


کرنی چاہئیں تا کہ جو بچے کلاس سے دور بھاگنے کی کوشش کرتا

بچوں کے نظم و ضبط کے حوالے سے ماں باپ کے درمیان ہے وہ بھی اپنی کلاس کے دوستوں جیسا بن جائے اور ایک

ایک اہم مجھوتہ ہونا چاہیے۔ آپ کے جو بھی مسائل ہوں فرمانبردار اور ریگولر طالب علم بنے۔


بچے کے سامنے آپ کو ایک بن کر پیش ہونا چاہئیں ۔ بچے کی میرے خیال میں بچوں کو سزا دینے کی بجائے انہیں نفسیاتی

موجودگی میں بالکل لڑائی جھگڑا نہ کریں سب سے زیادہ لحاظ سے دیکھنا اور پرکھنا چاہیے۔ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں۔


أ


اے

اپنے سکول یا گھر کے اردگرد کے ماحول سے لکھتے ہیں ۔ انہیں
خود سے اس بات کا کوئی خیال نہیں ہوتا کہ کی ایک اور کیا غلط۔
میرے سکول میں جو طالب علم لیٹ آتے ہیں یونیفارم
نہیں پہنتے یا اپنا ہوم ورک نہیں کرتے ان کا نام سکول کے
نوٹس بورڈ پر نمایاں طور پرکھا جا تا ہے جس کی ہیڈنگ ہوتی
ہے آج کے ہیروز‘ اس لیے ہر بچے کی کوشش ہوتی ہے
کہ و نظم و ضبط کا خیال رکھے تا کہ اس کا نام توش بورڈ پرنہ
آئے۔ اس طریقہ کار نے جسمانی سزاؤں کی نسبت کہیں
بہتر نتائج دیئے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ میرے دوست کی والدہ نے اسے سگریٹ
پیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ انہوں نے اسے
مارنے کی بجائے کہا سنو! آج تم نے وہ کام کیا ہے جو
تمہیں کبھی نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ اس میں تمہارا اپنا
قائد ہ تھا لیکن اس میں میں اپنے آپ کو قصور وار ٹہراتی
ہوں کہ شاید مجھ سے ہی تمہاری تربیت میں کوئی کمی رہ گئی
ہے۔ بچے کی والدہ نے اس دن کھانا نہیں کھایا۔ لیکن اس
کا چے پر نہایت گہرا اثر پڑا اور پھر وہ اپنی ساری زندگی
سگریٹ کے قریب نہیں گیا۔
میرے خیال میں جسمانی سزاکسی حد تک ٹیچر اور والدین کی
ناکامی کا ثبوت بھی ہے کہ وہ بچے کو آسان زبان میں سوال
جواب کر کے اپنی بات سمجھانے میں ناکام رہے ہیں۔
بچوں کو مارنے کی بجائے معبر قتل کے ساتھ جایا جائے
مارنے سے انہیں یہ تاثر ملتا ہے کہ جسمانی قوت زبان اور
بات چیت کرنے سے زیادہ طاقتور ہے۔

، و ه ی

نے
قی


Comments

Popular Posts