قرآن کا ادب



سردار یا باہر سے اسے کتاب و کمیٹی کے گی پر مسلمانوں کو قرآن ہے۔ ہم دونوں کو درد آند بی


طرف زیادہ خیال ہو گیا۔ ہم نے اسے کھول کر ایک ایک ورق کو گرد و غبار سے صاف کیا۔ ریشمی رومال اکران میں ان

اور شہر سے ایک مشہور کیسے ہوشیارکر کو جاتے ہوئے رائے پن اور کھیتوں میں ان کے امیر کئے ہیں مال مولش


کن

میں کی زمینداروں کا ایک کانوں کا کھیڑی پڑتا ہے۔ اس کی بات ہے کیوں کا رہنما ہیں محبت اور گھر میں

میں ایک سکھ زمیندار کرم نے کوئی زرئی زمین کا مالک تھا۔ اس ان کی بوریاں بھری رہتی ہیں۔

نے کانوں کی آبادی سے باہری ایک دکان بن کر رہائش التيار جب والد صاحب نے اس سے پوچھا کہ یہ برکت والاسود

کریمی اور تین چار گھر بنا کر اپنی سی بنارہی تھی۔


قرآن شریں آپ کے گھر میں کس طرح آیا تو گرم گھی مسلم

ایک وفد کا ذکر ہے کہ میں اور میرے والد بزرگوار مرحوم جو ہی لے تا کہ مرداری نے اپنی بستی میں ایک جوا ب می

حکیم نے اور میرا چھوٹا بھائی ہم تینوں امرتسر سے بانی کی بنا ہوا تھا اس کی دو کی بھی گئی تو وہ اکیلا رہ گیا۔ آخر وهي من

منڈی کے بعد اپنے گاؤں راہ تعالی کی طرف آرہے تھے۔ تھوڑے سے بعد پیار ہو کر مر گیا۔ اس کے گھر کا سامان


کیا

ہماری اچھی خامی زمینداری تھی ۔ والد صاحب نے منڈی وغیرہ اس کے رشتہ دار اور دوسرے گاؤں میں رہتے تھے۔

امرتسر سے ایک عمدہ تیل خریدا اور مشورہ ہوا کہ ہم یوں ہی گئے۔ اس کا کوا جو ہم نے اسے دیا ہوا تھا کافی عرسے

دل کو لے کر پویل می گانوں کو لیں چناچ تیسرے پہرام تک خال پا رہا


۔ رسے کے بعد ایک دن میں ینی کو ھے

امرتسر سے روانہ ہوئے شام کے قریب ہوم مع تیل کے کرم سے اندر کر دی تھی کہ کی دیوار میں ایک طاق میں گردوغبار

سے زمیندار کی بستی میں پہنچ گئے والد صاحب اور کرم سنگھ کی


سے اٹا ہوا ایک ویروسها رومال نظر آیا جس میں کچھ لپٹا ہوا پ

کے پہلے ہی جان پچھانی۔ کہنے لگے کمه و آج رات میں


معلوم ہوتا تھا میں وہ اپنی چیز اٹھا کر گھر لے آئی گردوغبار جھاڑ

خبریں اور تمہیں ایک کے مسلمان دکھلائیں۔


کر رومال کوالا تو دیکھا کہ ایک کتاب ہے۔ سرداری باہرے

ہم کرم سنگھ کی حویلی میں پانچ گئے۔ دو تین جوڑی تیل چند تو اب دیکھتے ہی تھینے گئے تو مسلمانوں کا قرآن

چینی اور اونٹ بندھے ہوئے تھے ہم نے بھی اپنا نیل


ہے۔ پھر ہم دونوں کو قدر اس قرآن شریف کی طرف زیادہ

وہیں با مردے دیا۔ اتنے میں کرم سنگھ بھی باہر آگئے ۔ صاحب

سلامت کے بعد ہمارے تیل کو چارہ ڈال کر دو میں اپنے


خیال ہو گیا۔ ہم نے اسے کھول کر ایک ایک ورق کو گردوغبار

رہائشی مکان میں لے گئے ۔ شام کی نماز کا وقت ہورہا تھا۔ ہم


سے صاف کیا ۔ دو نئے ریشمی رومال لا کر ان میں لپیٹا، خوشبو

نے نماز پڑھنے کی بات کی تو کرم سنگ نورا ایک چیل کا یا لوٹا پانی


لگائی اور مکان میں اونچی جگہ پر بڑے ادب سے رکھ دیا۔

سے بھر کر لے آیا۔ کہنے لگا کہ وضو کر دو اور کہیں نماز پر عو۔ ہم


ہماری شیروار بھینس بڑی کٹر ہی تھی وورد دو نہیں دیتی

و راپکائے کہ سکھ کے گھر میں نماز ! کرم سے ہماری جک دکھی


تھی۔ دوسرے تیسرے دن پکڑ کر باندھ کر دودھ نکا لتے مگر

کر کہے گا کوئی مضائق نہیں بلکہ ہمیں بڑی خوشی ہے کہ میرے شام کو آرام سے بھینس نے دودھ دے دیا اور پہلے سے کافی :


گھر میں بہت مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔ اتنے میں اس کی زیادہ دوره و یا بھینس متواتر آرام سے باقاعدہ اور زیادہ

بیوی بڑے بکس میں سے نئی دھلی ہوئی سفید چادر ڈال کر لائی دودھ دینے کی ۔ ہمارا قرآن شریف پر یقین پختہ ہوگیا ۔ ہم

اور کہنے کی کو اس پاک پوتر کپڑے پر نماز پڑھو۔ پھر چادر ایک ہر ہفتے قرآن شریف کو نیچے اتار کر رو بال کھول کر صاف

صاف ستھرے چبوترے پر بچھا دی ۔ ہم نماز سے فارغ ہوئے کرتے ۔ خوشبو لگاتے اور ادب کے ساتھرو ہیں اونچی جگہ رکھے

تو وہی سکے کرم سنگھ اپنے مکان میں سے قرآن شریف دومین دیتے تھے۔ اس وقت سے آج تک ہمارا سہی دستور ہے اب

رو بالوں میں لپٹا ہوا نکال کر لایا اور بڑے ادب سے ہمارے ہمارے گھر میں بہن بول رہا ہے۔ اس قدر برکت اور رونق

سامنے رکھ دیا۔ کہنے لگا آپ جو کچھ میرے گھر میں دیکھ رہے ہوئی ہے کہ کسی چیز کی کمی نہیں رہی۔ یہ برکت والا قرآن

ہیں یہ سب کچھ اس قرآن شریف کی بدولت ہے۔ جب سے شریف مرتے دم تک ہمارے ساتھ رہے گا۔ ہم ایک لاکھ


قرآن شریف ہمارے گھر میں آیا ہے تمام کیفیں دور ہوگئی روپے کی عیش بھی کی کویت دینے یا نہیں ۔




Comments

Popular Posts